Pages

Tuesday, August 15, 2006

Allao Urdu Novel By M.Mubin Part 14


چودھواں باب
کبھی لگتا طوفان تھم گیا۔ او رکبھی لگتا یہ تو آغاز تھا ۔ابھی عروج باقی ہی۔ گاو
¿ں کا طوفان تھم بھی گیا تو اس سےکوئی فرق نہیں پڑتا رہا تھا۔ چاروں طرف طوفان اٹھا ہوا تھا۔ آس پاس کےسارےگاو
¿ں ،علاقےجل رہےتھی۔ ہر جگہ وہی مناظر تھےجو نوٹیا میں دیکھےگئےتھی۔ وہی واقعات دہرائےجارہےتھی۔ جو نوٹیا میں پیش آئےتھی۔ہر گاو
¿ں میں ایک مہندر پٹیل سا راکشس موجود تھا۔ گاو
¿ں میں ایک بھی مسلمان نہیں بچاتھا۔ یا تو وہ آگ میں جل کر مر گئےتھی۔ یا ان کی بےوارث لاشیں گاو
¿ں کی سڑکوں پر سڑ چکی تھیں۔ یا پھر وہ جان بچاکر کسی طرح گاو
¿ں سےبھاگنےمیں کامیاب ہوئےتھی۔ اور قریبی شہر کےایک پناہ گزیں کیمپ میں کسمپرسی کی زندگی گذاررہےتھی۔ پورےگاو
¿ں پر ایک پر ہول سناٹا تھا۔ ہر چہرہ تنا ہوا تھا۔ تنےہوئےچہرےپر نہ تو پشیمانی کا تاثرات تھےاور نہ ہی فاتحانہ جذبات مستقبل کےخوف سےایک تناو
¿ ہر ایک کسی کےچہرےپر تھا۔ مہندر بھائی پٹیل جیسےلوگوں کےچہروں پر فاتحانہ تاثرات تھی۔ اور وہ ایک ایک لمحہ کا جشن منارہےتھی۔ لوگوں کو جمع کرکےتقریرں کرتی۔ اپنےکارنامےسناتےاور ان کو ان کےکارناموں پر مبارکباد دیتےاعلان کرتے۔”یہ اکھنڈ بھارت کی راہ میںپہلا قدم ہی....“”چل پڑےہیں.... اب منزل دور نہیں....“”آج گجرات .... کل دوسری ریاست.... “”ملک میں ایک بھی ....ملچھ نہیں بچےگا.... “”مسلمان یا تو قبرستان جائیں گی.... یاپاکستان ....“اب گاو
¿ں میں دھیرےدھیرےخاکی وردیاں دکھائی دینےلگی تھیں۔ اخبار کےرپورٹر اور ٹی وی چینل کےکیمرہ مین آنےلگےتھی۔لیکن ان کو جو کچھ ہوا اس کی کہانی سنانےوالا کوئی نہیں تھا۔ وہ پناہ گزیں کیمپوں سےلوگوں کی کہانیاں سن کر آتےاور ان کےلیےجلےگھروں کی منظر کشی کرکےخبریں بناتی۔ گاو
¿ں کےلوگوں کےزبانوں پر جیسےتالےلگےہوئےتھے۔ان کو سختی سےحکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنی زبان نہ کھولے.... اگر کسی نےزبان کھولی تو اس سےسختی سےپیش آیا جائےگا۔پریس رپورٹر لوگوں سےپوچھتےکہ کیا اس گاو
¿ں میں اس طرح کےواقعات ہوئےتوجواب میں وہ خاموش رہتےیا کچھ گھاگ قسم کےلوگ اس بات کو جھٹلاتےکہتےیہ گاو
¿ں کےشریف لوگوں کو بدنام کرنےکی سازش ہی۔ اس کا دل چاہتا کہ وہ کیمرےسامنےجاکر کھڑا ہوجائےاور جو کچھ اس نےاپنی آنکھوں سےدیکھا،جو کچھ اپنےکانوں سےسنا ،جو کچھ اس گاو
¿ں میں ہوا اس کا ایک ایک لفظ سنادی۔ لیکن وہ خوفزدہ تھا۔ اس ڈر تھا اگراس نےسچائی بیان کی ،زبان کھولی تو اس کا انجام بھی جاوید سا ہوگا۔چاروں طرف وحشی بکھرےپڑےتھی۔ وہ وحشیوں سےکےدرمیان گھرا ہوا تھا۔ اس لیےایک کونےمیں دبکےرہنےمیں ہی اس کو عافیت محسوس ہورہی تھی۔ اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی۔ وحشی دندناتےسارےگاو
¿ں میںآزاد گھوم رہےتھی۔ ان کےچہروں پر فاتحانہ چمک تھی۔ اور آنکھوں میں وحشی ارادے۔ شریف لوگ ان کو دیکھتےتو ان کےکارناموں کو یاد کرکےسہم جاتےتھے۔اور ادب سےانھیں سلام کرکےآگےبڑھ جاتےتھی۔ وہ لوگوں کےدلوں میں ڈر ،دہشت ،خوف کی علامت بن گئےتھی۔ سیاسی لیڈر آتے۔مگر مچھ کےآنسو بہاتی، دھواں دھارتقریریں کرتے۔ قاتلوں، مجرموں کو نہ بخشنےکا غزم کرتےاور واپس چلےجاتی۔ قاتل، مجرم، وحشی ان کےخلاف نعرےلگاتی۔ وحشت ،درندگی، پائندہ باد کےنعرےلگاتے۔اپنےکارناموں کےتاریخ کےسنہرےاوراق قرار دیتی۔ ایسا لگتا تھا جیسےدنیا سےانصاف ، رواداری، سچائی ،خلوص ،محبت اٹھ گئی تھی۔ بس چاروں طرف نفرت ،زہر ،فرقہ پرستی چھائی تھی۔ ایک الاو
¿ دہکا ہوا تھا ۔جس کی تپش چاروں طرف پھیلی تھی۔ دوتین دن سےاس نےدوکان نہیں کھولی تھی۔ رگھو اور راجو بھی کام پر نہیں آرہےتھی۔ اس دن وہ آئےبھی تو اس نےانھیں گھر بھیج دیا۔ ابھی حالات ٹھیک نہیں ہوئےتھی۔ جب حالت دست ہوجائیں گےتو دوکان کھولوں گا۔ دوکان کھول کر بھی کوئی فائدہ نہیں تھا۔ نہ کوئی گاہک آنےوالا تھا نہ دھندہ ہونےوالا تھا۔ سارا وجود غم کا صحرا بنا ہوا تھا۔ کتنےغم تھےان کا شمار کرنا مشکل تھا۔ گاو
¿ں میںہونےوالےواقعات کا غم ،جاویدکی موت کا غم .... اور اب سب سےبڑھ کر مدھو کی بربادی کا غم....مہندر کی درندگی کا احساس ....ان باتوں کو یا کرکےکبھی خون کھول اٹھتا تو کبھی وجود پر ایک بےبسی چھاجاتی اور دل خون کےآنسو رونےلگتا ۔وہ افسردہ سا دوکان کےباہر کرسی پر بیٹھا تھا۔ اسی وقت سامنےسےمہندر پٹیل فاتحانہ انداز میں چلتا ہوا آیا۔ ”کہوسردارجی کیسےہو؟تم بچ گئی؟ بڑی بات ہے؟ مجھ سےدشمنی لےکر بھی زندہ ہو.... ورنا پورےگاو
¿ں میں میرا کوئی بھی دشمن زندہ نہیں بچا ہی۔ “اس نےکوئی جواب نہیں دیا سر اٹھا کر خالی نظروں سےمہندر کو دیکھا۔ ”اوہو ....ہاں ....شاید تمہیں اصلی بات تو معلوم ہی نہیں ہوئی ۔سچ مچ تمہیں اس بات کا پتہ نہیں چلا ہوگا۔ ورنا ان ا نکھوں میں یہ خالی پن نہیں ہوتا ....آگ ہوتی....مدھو سےبہت پیار کرتےہونا؟مدھو بھی پیار کرتی ہےتمہیں۔ مدھو جو میری ہی۔ جس پر صرف مہندر پٹیل کا حق ہی۔ وہ مدھو تمہاری ہوگئی تھی۔ اور تم پر اپنا تن من دھن سب کچھ نچھاور کرنےکےلیےتیار تھی۔ مہندر پٹیل کو ٹھکرا کر .... “مہندر رک گیا اور اس کےچہرےکےتاثرات پڑھنےکی کوشش کرنےلا۔ وہ خالی خالی نظروں سےاسےگھورےجارہا تھا۔ ”لیکن اب مدھو تمہاری نہیں رہےگی۔ مدھو اگر عزت درا باپ کی بیٹی ہوگی تو تمہارےقریب بھی نہیں پھٹکےگی۔ اور مدھو کی اصلیت جان کر تو تم مدھو کی صورت دیکھنا بھی قبول نہیں کروگے....اب مدھو زندگی بھر ایک رنڈی بن کر زندہ رہےگی۔ ایک رنڈی جس کو میں جب چاہوں تب استعمال کروں گا۔ “مہندر کی بات سن کر اس کےکانوں کی رگیں پھڑکنےلگیں۔”شاید تمہیں معلوم نہیں ہے....مدھو کےساتھ میں سہاگ رات منا چکا ہوں۔ مدھو کےکنوارےپن کو میں ختم کرچکا ہوں۔ مدھو کی جوانی کا ذائقہ سب سےپہلےمیں نےچکھا ہی۔اب وہ باسی ہی۔ تم باسی کھانا کھاو
¿گی؟.... کھاو
¿.... اگر تم مدھو کو اپنا بھی لو .... تو مجھےکوئی فرق نہةیں پڑےگا.... وہ میرا باسی....جھوٹا چھوڑا ہوا کھانا ہی۔ جسےتم زندگی بھر کھاتےرہوگی.... تو سردارجی ....میرا جھوٹا کھانا پسند کروگے؟ ....کرلو مدھو سےشادی....لیکن اس کےساتھ سہاگ رات تو میں منا چکا ہوں ....اس کےایک ایک انگ سےکھیل چکا ہوں....اس کےجسم کا ایک ایک حصہ اپنی آنکھوں سےبرہنہ دیکھ چکا ہوں.... اسےبھوگ چکا ہوں ....آہا ....آہا ....آہا.... جاو
¿ میری جھوٹی چھوڑی مدھو کو بھوگو....آہا ....آہا.... “”مہندر “اچانک اس کےمنہ سےایک چیخ نکلی ”کمینےمیں تجھےزندہ نہیں چھوڑوں گا.... تونےمیری مدھو کو برباد کیا ....میں چپ رہا .... اب تو اسےذلیل کررہا ہی۔ تو زندگی بھر اس طرح میری مدھو کو ذلیل کرتا رہےگا ۔ اس لیےاب میں تجھےزندہ ہی نہیں چھوڑوں گا.... بولےسونہال....“کہتےہوئےاس نےکرپان نکالی اور مہندر کی طرف لپکا۔ مہندر اس نئی سچویشن سےگھبراگیا تھا۔ مہندر نےخواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ جمی اس طرح کا کوئی قدم اٹھائےگا۔ اس کےہاتھوں میں ننگی کرپان تھی اور وہ کرپان لہراتا ہوا اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔”نہیں “چیختا ہوا وہ گاو
¿ں کی طرف بھاگا۔ عجیب منظر تھا۔ مہندر جان بچاکر کتوں کی طرح بھاگ رہا تھا۔ اور جمی اس کےپیچھےہاتھ میں ننگی کرپان لیےدوڑریا تھا۔ جو بھی اس منظر کو دیکھتا ۔ خوفزدہ ہوکر ایک طرف ہٹ جاتا ۔اور دونوں کو راستہ دےدیتا۔ جیسےہی مہندر اس کےقریب آتا وہ اپنی کرپان سےاس وار کرتا ۔مہندر چیخ کرگرتا۔ لیکن ا سےپہلےکہ وہ اس پر دوسرا وار کرےمہندر پوری طاقت یکجا کرکےاٹھ کھڑےہوتا اور بھاگ جاتا ۔ جمی پھر اس کےپیچھےننگی کرپان لےکر دوڑتا۔ جہاں موقع ملتا وہ کرپان سےمہندر کےجسم پر وار کرتا ۔مہندر سر سےپیر تک خون میں ڈوبا ہوا تھا۔ لوگوں نےاس سےبھی ہولناک مناظر دیکھےتھے۔لیکن ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔ کل کا یودھا بےبس ،بےیاروں مددگار اپنی جان بچاےکےلیےبھاگ رہا تھا۔ کل تک جو لوگوں کی موت کا بنا ہوا تھا آج موت اس کا تعاقب کررہی تھی۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ جمی کو روکے۔جمی اپنی کرپان سےمہندر پر وار کیےجارہاتھا۔ آخر زخموں کی تاب نہ لاکر مہندر زمین پر گر پڑا۔ خون میں لت پت مہندر آخری بار تڑپااور پھر ساکت ہوگیا۔ نڈھال ہوکر جمی کرپان کا سہارا لےکر زمین پر بیٹھ گیا ۔اور پھوٹ پھوٹ کر رونےلگا۔ لوگ اس کےسینکڑوں میٹر دور دائرےکی شکل میں کھڑےاسےخوف سےدیکھ رہےتھی۔ کسی میں اس کےقریب آنےکی ہمت نہیں تھی۔ وہ مسلسل رورہا تھا............!!




Contact:-
M.Mubin
http://adabnama.tripod.com
Adab Nama
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI-421 302
Dist.Thane ( Maharashtra,India)
Email:-adabnama@yahoo.com
mmubin123@yahoo.com
Mobile:-09372436628
Phone:-(02522)256477














 
Copyright (c) 2010 Allao Urdu Novel by M.Mubin Part 14 and Powered by Blogger.